حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

  • Admin
  • May 08, 2023

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یمن کے ایک شہر میں بوسیدہ لباس میں کوئی مستانہ وار جارہا ہے۔ شہر کے آوارہ بچے اس کے پیچھے تالیاں بجاتے اور آوازے کستے چلے آرہے ہیں، بچوں نے کنکر بھی مارنا شروع کردیئے۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ فقیر کنکریاں مارنے والوں کو نہ روکتا ہے نہ ٹوکتا ہے۔ مسکراتے اور زیر لب گنگناتے وہ اپنی دھن میں چلا جارہا ہے۔ اچانک کسی جانب سے ایک بڑا پتھر اس کے سر سے آٹکراتا ہے۔ زخم سے خون کی ایک پتلی سے لکیر جب پیشانی کو عبور کرنے لگتی ہے تو وہ رک جاتا ہے۔ پھرپتھر مارنے والے بچوں کی طرف رخ کرکے کہتا ہے۔

میرے بچو بڑے پتھر نہ مارو چھوٹی کنکریاں مار کر دل بہلاتے رہو۔

 بس ایک ہی پتھر سے اندیشہ اتر گیا۔ ایک منہ پھٹ لڑکا آگے بڑھتے ہوئے کہتا ہے۔

نہیں میرے بیٹے ایسی کوئی بات نہیں۔ میں چاہتا ہوں تمہارا شغل جاری رہے اور میرا کام بھی چلتا رہے۔ کنکریوں سے خون نہیں بہتا۔ پتھر لگنے سے خون بہنے لگتا ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور بغیر وضو کے میں اپنے محبوب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکتا۔

یمن کے شہر قرن میں ایک کوچے سے گزرنے والے یہ درویش عشق و مستی کی سلطنت کے بادشاہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ تھے۔ کعبہ محبت کا طواف کرنے والوں کا جب بھی ذکر چھیڑے گا تو حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی سرفہرست رہے گا۔

آباؤ اجداد و مسکن:

    سیّد التابعین، تاجدارِ یمن، عاشقِ رسول ﷺ حضرت خواجہ اویس قرنیؓ کا اسم مبارک ”اویس“ ہے اور آپؓ کی کنیت ابی عمروؓ ہے۔ حضرت ملا علی قاریؒ شرح مشکوۃ شریف میں لفظ”اویس“ کو ”اوس“ کی تصغیر ذکر کرتے ہیں۔

 حضرت ابنِ عدیؓ نے حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے ارشادفرمایا کہ ”میری اُمت میں ایک شخص ہوگا جس کا نام اویس بن عبداللہ قرنی ہوگا۔ وہ میری امت کی شفاعت کرے گا جس قدر بنو ربیعہ اور بنو مضرکی بھیڑوں کے بال ہیں۔

“یہی حدیث مبارکہ حضرت مولانا علی بن سلطان قاری ؒ نے کتاب ”معدن العدنی“ میں لکھی ہے اور شرح مشکوٰہ شریف میں بھی درج ہے۔

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کے والد گرامی کا نام عبداللہ تھا۔ بعض روایات کے مطابق آپؓ کے والد محترم کا نام عامر اور دادا کا نام عبداللہ ہے۔ آپؓ کی والدہ ماجدہ کا نام بدار ہے۔ حضرت محمدعبید ؒ کی کتاب سے الشیخ احمد بن محمود اویسؒ آپؓ کا شجرہ نسب اس طرح بیان کرتے ہیں۔ 

اویس بن عامر بن عبداللہ بن جراح بن بلال بن اہیت بن حبشہ بن خرمش بن غالب بن قہر بن قریش بن مالک بن نضر بن کنانہ۔۔۔اس شجرہ نسب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؓ  قریشی ہیں۔ آپؓ قرن کے رہائشی تھے جو سرزمینِ یمن میں ایک گاؤں ہے۔

کھانا ولباس اور معاش:

    حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی ؓ امام ومقتداء ہیں۔ آپؓ نے دنیوی معاملات سے اس طرح منہ موڑ لیا تھا کہ لوگ آپ ؓ  کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ دودوسال تک لوگ آپؓ  کو نہ دیکھتے تھے کیونکہ آپؓ  فجر کی اذان کے وقت شہر سے باہر چلے جاتے اور نمازِ عشاء کے بعد واپس آتے۔ آپؓ کا کھانا مبارک کھجور کی گری پڑی گھٹلیاں ہوتیں جو آپؓ راستے سے چن لیتے تھے اور اسی سے روزہ افطار کرتے تھے۔ آپؓ اکثر روزے سے رہتے تھے۔ افطار کیلئے درختوں سے گری پڑی کھجوریں اٹھالیتے یہی آپؓ کی خوراک تھی۔ بچ جانے والی کھجوروں کو صدقہ کردیتے تھے۔آپؓ  کا لباس ایک خرقہ ہوتا جس پر پیوند لگے ہوتے تھے۔ آپؓ پیوند پر پیوند لگاتے رہتے اور اسی لباس کو پہنتے رہتے۔ اپنے بال مبارک پراگندہ رکھتے جب بچے آپؓ  کو دیکھتے تو آپؓ  کو دیوانہ سمجھ کر پتھر مارتے تھے۔ آپؓ ان سے ناراض نہ ہوتے تھے اور منع نہ کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ بچو چھوٹے پتھر مارو تاکہ زخم لگ کرخون نہ نکل آئے اور میں طہارت ونماز سے نہ رہ جاؤں۔

    آپؓ کے پاس اونٹوں کے بالوں (اُون) کی بنی ہوئی ایک گدڑی (خرقہ) تھی اور اکثر دفعہ پھٹے پرانے کپڑوں کے چیتھڑوں کو اکٹھا کرکے ان کا لباس تیار کرلیتے تھے اس وجہ سے آپؓ کے رشتہ دار آپؓ  کا مذاق اُڑاتے تھے اور لوگ آپ پر خاک ڈالتے تھے۔ آپؓ زمین  سے گری چیزیں اٹھاکر دھوکر اور صاف کرکے کھالیتے تھے۔ 

    حضرت سیدنا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ ”کشف المحجوب“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ جب امیر المومنین حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنی ؓ کے بارے میں اہلِ قرن سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ”اویس نامی ایک دیوانہ ہے۔ جو آبادی میں نہیں آتا، کسی سے میل ملاپ نہیں رکھتا، جو لوگ کھاتے ہیں وہ نہیں کھاتا، خوشی غمی سے بے نیاز ہے، جب لوگ ہنستے ہیں تووہ روتا ہے۔“حضرت شیخ بخشیؒ نے ”سلک سلوک“ میں تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت عمرِ فاروقؓ نے قرن کے لوگوں سے آپؓ کے بارے استفسار کیا تو لوگوں نے بتایا کہ ”وہ ایک شتربان (اونٹ چرانے والا) ہے جو لوگوں کے اونٹ چراتا ہے۔ اونٹوں کے ساتھ رہتا ہے اور آبادی میں نہیں آتا“۔”مجالس المومنین“ میں لکھا ہے کہ حضرت اویسؓ  شتربانی کرتے تھے اور اس سے ملنے والی اجرت کو اپنے اور اپنی والدہ پر خرچ کرتے تھے۔

    مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”اے عمر! یمن کی طرف سے ایک شخص آئے گا جس کا نام اویس ہوگا۔ اس کے جسم پرپھلبہری(برص) کے داغ ہوں گے صرف ایک داغ درہم کے برابر رہ جائیگا۔ وہ میانہ قد اور لمبے بالوں والا ہوگا۔ اس کی والدہ بھی ہیں جن کا وہ خدمت گار ہے۔ اسکی شان یہ ہے کہ جب بھی وہ اللہ کی قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کردیتا ہے۔ جب تم اس سے ملو تو میرا سلام پہنچائیں اور اس سے کہو کہ وہ میری اُمت کیلئے دعا کرے۔“ 

فضائل ومناقب:

 مشہور دینی کتب مجالس المومنین وغیرہ میں درج ہے کہ آپؓ رات کو رکوع میں گزار دیتے اور دن سجدے میں۔ اور فرماتے کہ یہ رات رکوع والی ہے اور یہ رات سجدے والی۔ اس قدر ریاضت وعبادت کے باوجود فرمایا کرتے کہ افسوس کہ رات انتہائی مختصر ہوتی ہے کاش ازل تاابد ایک ہی رات ہوتی اور میں رکوع اور سجدے میں گزار دیتا۔ اور مزید فرمایا کرتے میں تو اچھی طرح 

”سبحان ربی الاعلی“ بھی نہیں کہہ پاتا کہ صبح ہو جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ملائکہ کی طرح عبادت کروں۔ تنہاپسندی، تواضع وانکساری، مروت وخلقِ خدا کی خیر خواہی، قناعت وتقویٰ اور محبت وعشقِ رسول ﷺ آپ ؓ  کا خاصہ تھا۔ 

آپؓ کے پوشیدہ رہنے کی وجہ:

یہ سوال کہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی ولایت کے اخفا کی وجہ کیا تھی اور آپ دور صحابہ میں کیوں مستور الحال رہے؟ تو اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقات شرح مشکوۃ میں بیان فرمایا کہ چونکہ حضرت خواجہ مستجاب الدعوات تھے (اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کرانے کی تلقین فرمائی تھی نیز ان کے بارے فرمایا تھا کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو قسم اٹھادیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرمادیتا ہے۔ (معینی) چونکہ ایسے لوگوں کی خدمت میں ہر نیک و بد اور مجرم بھی دعا کا طالب ہوتا ہے اور یہ جمالی مردان خدا کسی کو انکار نہیں کرسکتے یہ ممکن نہ تھا کہ نیک کے لئے دعا کرتے اور دوسروں کو نظر انداز کردیتے۔ چونکہ یہ بات حکمت الہٰی کے خلاف تھی اس لئے ان کا حال پوشیدہ رہا۔ دوسری وجہ مستور رہنے کی مولف لطائف نفیسیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اولیاء کی ایک جماعت کا اپنے آپ کو چھپانا اس غیرت کی وجہ سے ہوتا ہے جو محب کو اپنے محبوب کے بارے ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت محی الدین ابن عربی کتاب فتوحات میں لکھتے ہیں۔

طائفہ محبان میں غیرت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ بسبب غیرت چھپے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ غیرت محبت کا ایک وصف ہے چنانچہ یہ لوگ اپنے محب ہونے کو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں رجال الغیب میں شامل تھے اور یہ لوگ مستورالحال ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ملا علی قاری معدن العدنی میں لکھتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں قطب ابدال حضرت اویس رضی اللہ عنہ تھے کیونکہ وہ مخفی الحال تھے امام یافعی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت شدہ رشک غیرت کی وجہ سے قطب ابدال لازماً مستور الحال ہوتا ہے۔ 

حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کمالِ محبت:

اللہ تعالیٰ نے حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو فطرت سلیمہ اور طبع صالح عطا فرمائی تھی جونہی آپ کے کانوں تک نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو دل نے فوراً صداقت کی گواہی دی اور آپ نے اسلام قبول کرلیا پھر تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ اور اوصافِ حمیدہ سن کر آپ کے دل میں چراغ محبت فروزاں ہوگیا۔

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد

بساکیں دولت از گفتار خیزد

یعنی عشق صرف دیدار سے ہی پیدا نہیں ہوتا، بعض دفعہ محبوب کی باتیں سننے سے بھی آتش عشق بھڑک اٹھتی ہے۔ حضرت خواجہ ؓکے من میں یہ آگ ایسے بھڑکی کہ اس نے دنیا و مافیہا سے بے نیاز کردیا۔

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

آپ پر ہر وقت وارفتگی کی حالت طاری رہتی لیکن اس سکرو مستی کے باوجود خوداری کا عالم یہ تھا کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرتے۔ 

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ تابعین میں شمار ہوتے ہیں بلکہ کتابوں میں آپ کو سید التابعین اور خیرالتابعین کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ آپ کو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری مجلس نصیب نہ ہوسکی اس لئے صحابیت کا درجہ نہ پاسکے روایات میں ہے کہ آپ کی والدہ ضعیف و ناتواں تھیں چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ انہیں چھوڑ کر طویل سفر پر روانہ نہ ہوسکتے تھے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوسکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مقام رضا اور مقام محبوبیت پر فائز ہونے والے اولیاء کے لئے بُعدِ مکانی اور بُعدِ زمانی کوئی حیثیت نہیں رکھتا چنانچہ یہ لوگ حضوری کی لذت سے سرفراز ہوتے ہیں بقولِ شاعر۔

گر در یمنی، بامنی، پیش منی

ور بے معنی، پیش منی در یمنی

ترجمہ: اگر تو یمن میں رہتا ہے اور تیرا قلبی تعلق میرے ساتھ جڑا ہوا ہے تو تو میرا ہم نشین ہے اور اگر میرے سامنے بھی بیٹھا ہے لیکن تعلق قلبی میرے ساتھ استوار نہیں تو میرے لئے یمن میں بیٹھا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ابوجہل قریب رہ کر بھی دور رہا اور حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ یمن میں رہتے ہوئے بھی دیدار اور حضوری کی لذت سے سرشارہے۔

تذکرۃ الاولیاء میں یہ روایت درج ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے استفسار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چشم ظاہری کی بجائے چشم باطن سے انہیں میرے دیدار کی سعادت حاصل ہے۔

وصال مبارک:

2فرامینِ مصطفےٰﷺ:

1 تم میں سے جو اویس کو پائے تو اُس سے دعائے بخشش کرائے    2بے شک اویس خَیرُالتّابِعِین ہے۔ آپ ؓعشق ِرسول ، گوشہ نشینی اور زہد و تقویٰ میں مشہور تھے۔ جنگِ صِفِّین صفر37ھ میں شہید ہوئے۔